کورونا وائرس: پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں صحتیاب ہونے والے واحد مریض کی کہانی

  • ایم اے جرال
  • صحافی
لیاقت، کورونا، کشمیر، پاکستان

،تصویر کا ذریعہMA JARRAL

،تصویر کا کیپشنلیاقت، کورونا، کشمیر، پاکستان

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکام کے مطابق یہاں سب سے پہلے کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 42 سالہ لیاقت حسین اب مکمل صحتیاب ہوگئے ہیں اور انھیں آئسولیشن وارڈ میرپور سے فارغ کر کے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

کمشنر میرپور محمد رقیب خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ لیاقت حسین کا تعلق اس خطے کے ضلع سدھنوتی کے علاقے ڈنہ نگشیر سے ہے۔ وہ 29 فروری کو ایران سے سفر کر کے تفتان پہنچے جہاں انھیں قرنطینہ میں 14 دن رکھا گیا اور پھر ڈی جی خان لایا گیا۔ وہاں سے پھر اسی دن انھیں میرپور منتقل کیا گیا۔

میرپور میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر فدا حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ لیاقت حسین میں کورونا کی تشخیص 16 مارچ کو ٹیسٹ کے نتائج آنے پر ہوئی جس کے بعد انھیں آئسولیشن وارڈ میرپور میں منتقل کیا گیا اور 14 روز رکھنے کے بعد ان کے دو ٹیسٹ لیے گے جو منفی آئے۔ اس بنا پر انھیں سنیچر کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔

لیاقت حسین پیشے کے اعتبار سے مزدور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایران میں مقدس مقامات کی زیارت کرنے گئے تھے اور 15 روز وہاں مقیم رہے. ’29 فروری کو ایران سے تفتان، وہاں 14 روز گزارنے کے بعد ڈی جی خان اور پھر میرپور پہنچنے تک میرے میں ایسی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی جس سے معلوم ہوسکے کہ میں کورونا وائرس سے متاثر ہوں۔‘

ان کے مطابق انھیں تب شک ہوا جب انھوں نے تفتان میں حکومت کے غیر تسلی بخش انتظامات اور ایران سے آنے والے زائرین کا آپس میں میل جول دیکھا۔ ’مجھے لگا اب میں وائرس کی زد میں آسکتا ہوں۔‘

انھوں نے بتایا ’تفتان میں زائرین کی بڑی تعداد پاکستان ہاؤس اور ٹینٹوں میں موجود تھی۔ میں پاکستان ہاؤس کے ایک ہال میں تھا جہاں زائرین کی بڑی تعداد موجود تھی جن کا آپس میں میل جل عام حالات کی طرح تھا۔ کسی نے احتیاط برتنے کا پابند کیا نہ ہم نے خود سے احتیاط کی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور دیگر علاقوں میں شاید کورونا پھیلتا ہی نہ اگر تفتان میں بہتر انتظامات ہوتے۔

بی بی سی
بی بی سی

لیاقت صحتیاب کیسے ہوئے؟

لیاقت حسین کا کہنا ہے کہ انھیں میرپور آنے کے بعد دیگر زائرین کے ہمراہ میڈیکل کالج میں چار روز تک رکھا گیا۔ پھر اس کے بعد کورونا ٹیسٹ کے نتائج مثبت آنے پر آئسولیشن وارڈ میرپور میں منتقل کر دیا گیا۔

’آئسولیشن وارڈ میں منتقل ہونے تک مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ میں کورونا وائرس سے متاثر ہو چکا ہوں یا نہیں۔‘

نتائج مثبت آنے پر انھیں ڈی ایچ او ڈاکٹر فدا حسین بخاری اور کمشنر محمد رقیب خان کی کال آئی اور ان کا حوصلہ بڑھایا گیا۔ انھیں بتایا گیا کہ ’آپ کو مزید بہتر طبی سہولیات دینے کے لیے نئے وارڈ میں منتقل کر رہیں جہاں آپ کچھ دن اکیلے ہوں گے مگر ہسپتال کا عملہ آپ کی دیکھ بھال کے لیے ہوگا۔‘

لیکن اس کال میں بھی ان سے یہ بات چھپائی گئی کہ ان کے نتائج مثبت آئے ہیں۔ لیاقت کہتے ہیں کہ ’مجھے سمجھایا کہ اگر نتائج مثبت آئے تو گھبرانا نہیں بس ان باتوں پر عمل کرنا ہے جو آپ کو بتائی جائیں گی۔‘

انھیں آخر کار آئسولیشن وارڈ میں معلوم ہوا کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ’اگر دل کی بات پوچھیں تو سچ یہ ہے کہ یہاں کے ڈاکٹرز، نرسنگ اسٹاف اور انتظامیہ نے مجھے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں کورونا وائرس سے متاثر ہوں۔‘

لیاقت بتاتے ہیں کہ ان کا کافی خیال رکھا گیا اور’ایک میڈم نے گھر سے کپڑے بھی لاکر دیے۔ اگر یہ سب لوگ ایسا اخلاق نہ رکھتے تو شاید میں اتنی جلدی صحتیاب نہ ہوتا۔‘

لیاقت حسین

،تصویر کا ذریعہMA JARRAL

،تصویر کا کیپشنلیاقت حسین

انھوں نے سب کو یہ پیغام دیا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں کیونکہ ’اس کے علاہ بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ وائرس اتنا خطرناک نہیں مگر اس سے متاثر ہونے والا اگر خوف زدہ ہوجائے تو پھر یہ بہت خطرناک ہے اور جان بھی جا سکتی ہے۔‘

لیاقت کی صحتیابی پر حکام کافی خوش ہیں حتیٰ کہ انھیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے بھی فون کیا ہے اور ان کی خیریت کے ساتھ ساتھ ہسپتال میں سہولیات سے متعلق دریافت کیا ہے.

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام کے مطابق اس خطے میں اب تک کورونا وائرس سے 12 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک مریض، یعنی لیاقت حسین، صحتیاب ہوا ہے۔

حکام کے مطابق اب تک 300 سے زیادہ افراد کو قرنطینہ سنٹر لایا گیا جس میں سے 200 کے قریب کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔

خطے میں پاکستان کے چاروں صوبوں کی طرح لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے جبکہ وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے ایک الگ آئسولیشن ہسپتال اور 10 اضلاع میں 11 آئسولیشن وارڈز بنائے گئے ہیں۔

یہاں کے 12 متاثرین میں سے سب سے زیادہ مریض (چھ) ضلع بھمبر سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع ہے۔ حکام کے مطابق اکثر مریض بیرون ملک سے پاکستان آئے یا ان میں وائرس کی منتقلی برطانیہ یا سپین سے آنے والوں سے ہوئی۔